توجہ فرمائیں۔۔۔

پاکستان ورچوئل لائبریری" آپ کو مفت آن لائن کتابوں کی سہولت عرصہ 15 سال سے فراہم کررہی ہے۔ جس کی ڈومین ، ہوسٹنگ اوردیگر انتظامات پر سالانہ پانچ لاکھ سے زیادہ کا خرچہ آتا ہے۔ حالیہ عرصہ میں ڈالر کی قدر میں بے تحاشہ اصافے کی وجہ سے لائبریری کو جاری رکھنے میں مالی مشکلات کا سامنا ہے، اس لئے پہلی بار ہم آپ سے مالی تعاون کی اپیل کررہے ہیں۔ آپ کے بھیجے ہوئے سو یا پچاس روپے بھی اس خدمت کو جاری رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔    مالی تعاون کے لیے یہاں کلک کریں۔

Pyramids of Egypt – Ahram e Misr Ke Sarbasta Raaz

Pyramids of Egypt - Ahram e Misr Ke Sarbasta Raaz

فرعونوں کے مقبرے اہرام مصر کے سربستہ راز

آسمان اور زمین کے درمیان موجود ہر شے فنا ہوجاتی ہے مگر تاریخ زندہ رہتی ہے۔  اہرام کی تصویروں کو دیکھ کر ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال آتا ہو کہ ہزاروں سال پہلے جب انسان کا علم اور وسائل محدود تھے، اُس نے ایک لق و دق صحرا میں اتنے عظیم مقبرے ، جن میں ٹنوں وزنی پتھر استعمال ہوئے ہیں، کیسے تعمیر کئے؟

صدیوں سے تاریخ دان اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کروہے ہیں۔ ماہرین کے مطالعوں سے جہاں نئے پہلو سامنے آئے ہیں وہاں نئی بحثوں نے بھی جنم لیا ہے اور خاص طور پر اہرام کی وراثت کے حوالے سے کئے تنازؑے بھی کھڑے ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی تاریخ دان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اہرام کی تعمیر قدیم یہودی غلاموں نے کی تھی۔ چناچہ دنیا کے سات عجائبات میں شامل ان اہرام کی تاریخ کے حقیقی وارث یہودی ہیں۔

تقریباً ۴۷ سو سال قبل کے معماروں نے اہرام بناتے وقت ریاضی کے اصولوں کو سامنے رکھا تھا۔ ماہرین نے جب ان مقبروں ی تعمیر، اُس میں استعمال ہونے والے پتھروں اور اُن کے ڈیزائن کا مطالعہ کیا تو کئی حیرت انگیز انکشافات ہوئے۔

اہرام بڑے بڑے مقبرے اس سے بڑے مقبرے شاید ہی منظرعام پر آئے ہوں۔ ان مقبروں میں مصر کے فرعونوں کی لاشیں محفوظ کی جاتی تھیں۔ یہ مقبرے قدیم تہذیب کی تمام تر قوت کی واضح علاما ت تھے۔

یہ تہذیب جو چار ہزار  برس تک قائم رہی  یہ آپس میں بے لوچ، سخت اور کڑے مذہبی ڈھانچے میں بندھی ہوئی تھی۔ اور یہ ڈھانچہ نہ صرف حکمرانوں بلکہ عوام پر بھی مکمل طور پر لاگو ہوتا تھا۔ مذہبی پیشوا نہ صرف روحانی زندگی کے کرت دھرتا تھے بلکہ دنیاوی زندگی میں بھی ان کو برابر عمل دخل  حاصل تھا۔ وہ حکومتی مشیر بھی تھے اور سائنس دان بھی تھے۔ وہ ایک لحاظ سے اس سول سروس کے رکن تھے جس کا کام ایک قائم شدہ معاشرے کو محفوظ بنانا تھا اور اس معاشرے کو جاری و ساری رکھنے کا بندوبست سرانجام دینا تھا۔ لہٰذا اہرام موت کی صورت میں وہی کردار سرانجام دیتے تھے جو کردار  سرانجام دیتے تھے جو کردار محلات زندگی کی صورت میں سرانجام دیتے تھے۔ محلات اپنے بڑے بڑے ستونوں اور مجسموں کے ساتھ لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے بنائے جاتے تھے۔ یہ محلات لوگوں کو ان کے حکمرانوں کی ان کی زندگی میں شان و شوکت اور قوت سے روشناس کرواتے تھے۔ اہرام مرنے کے بعد ان کی شان و شوکت اور قوت سے روشناس کرواتے تھے۔

اہرموں کی تعمیر پرانی بادشاہت کے دور میں منظر عام پر آئی تھی (۱۶۱۳ قبل مسیح)۔ یہ تیسرے شاہی سلسلے کا فرعون ڈجوسر تھا جس  نے پتھروں سے اہرام تعمیر کروایا اور اس نے اہرام کی دیواروں کو سیڑھیوں کی شکل میں ترتیب دیا۔ یہ دیواریں ۶۰ میٹر بلند تھیں۔ تیسرے شاہی سلسلے کے فرعون سنی فیرو نے بھی مخروطی شکل کا مقبرہ تعمیر کروایا۔ اسی فرعون نے اہرام کے نظرئے کو نئی طرز عطا کی اور اس کی سیڑھیوں کو پُرکرتے ہوئے اسے ہموار مخروطی شکل عطا کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان اہراموں کے سائز میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ بڑے بڑے اہرام منظرعام پر آنے لگے۔

یہ فرعون کن کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل ہیں۔ اپنی زندگی میں اہراموں کی تعمیر مکمل ہوتے نہ دیکھ سکے۔ ان اہراموں کی عظیم عمارات ہزاروں مزدوروں نے بڑے بڑے پتھروں سے پایہ تکمیل تک بہنچائیں۔ ان پتھروں کا وزن اڑھائی ٹن تک تھا۔

ایک بڑے اہرام کی اونچائی تقریباً ۵۱۵ فٹ ہے۔ اب یہ چند فٹ کی حد تک ٹوٹ چکا ہے۔ اس کی بنیاد ۷۵۴ مربع فٹ میں پھیلا ہوا ہے۔  اس کی تعمیر میں پتھروں کے  دو کروڑ تیس لاکھ بلاک استعمال ہوئے تھے۔ اور شمالی جانب اس کا داخلی راستہ سطح زمین سے ۵۹ فٹ اونچا ہے۔ ایک برآمدہ ایک زیرزمین چیمبر کی جانب جاتا ہے جہاں سے ملکہ کے چیمبر اور اس کے بعد بادشاہ کے چیمبر تک  راسائی ممکن ہے۔

Pyramids of Egypt – Ahram e Misr Ke Sarbasta Raaz

A pencil sketch of Pyramids of Egypt. One of the oldest wonder of the ancient worlds is that still survives the group of Pyramids in Giza, Egypt. On the west bank of the Nile near Cairo. The largest of them , the Great Pyramid of Khufu, was built by the pharaoh Khufu around the year 2560 B.C, to serve as his tomb. It is thought to have taken 100,000 laborers about twenty years to build, using an estimated 23 million blocks each weighing more that two tons.
This Pyramids base was 756 feet on each side, and when completed the pyramid was about 480 feet high. For more than forty three centuries it was the tallest structure on earth, not to be surpassed till the nineteenth century A.D. On the north face is an entrance form which corridors, galleries and escape shafts lead to the King’s burial chamber or were used for other functions.