Qurbani Ke Fazail o Masail

عید اورقربانی کے فضائل و مسائل قُرآن و حدیث کی روشنی میں

            حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ رب العزت کے برگزیدہ پیغمبر تھے، اس کے ساتھ ساتھ ان کو خلیل اللہ ہونے کا بھی شرف حاصل تھا۔ آپ  علیہ السلام کی ساری زندگی آزمائش و ابتلاء کی مثالوں سے بھری پڑی ہے اور ہر امتحان میں آپ علیہ السلام کامیاب و سرخرو بھی ہوئے۔ آپ علیہ السلام کو اعلان توحید کی پاداش میں آگ میں بھی ڈالا گیا اور اللہ رب العزت کے حکم  سے یہ خطرناک آگ کے شعلے آپ کیلئے گل گلزار ہوگئے۔  پھر وطن چھوڑ کر ہجرت کرنے کا حکم ملا تو آپ نے لبیک کہہ کر اس حکم کی بھی تعمیل کی۔ انہی آزمائشوں میں سے ایک آزمائش وہ بھی تھی جب آپ علیہ السلام کو خواب میں اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم دیا گیا اور اس حکم کی تعمیل میں آپ علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا پروگرام بنایا لیکن اللہ رب العزت نے حضرت اسماعیل  علیہ السلام کی جان بچائی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو صرف قبول ہی نہ فرمایا بلکہ آئندہ کے لئے  سنت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں اہل ایمان پر قربانی کو واجب قرار دے دیا اور فرمایا کہ:

“اور ( اسماعیل علیہ السلام کے) فدیہ میں عظیم مینڈھا دیدیا اور انکا اچھا تذکرہ بعد والی قوموں میں باقی رکھا”۔ (الصافات ۱۷۹، ۱۸۰)

قربانی کی فضیلت

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا

اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کے دن بندوں کے تمام اعمال میں پسندیدہ عمل جانور کا خون بہانا ہے اور بندہ قیامت کے دن اپنی قربانی کے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت حاضر ہوگا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ لہٰذا تمہیں چاہیے کہ خوش دلی سے قربانی کرو ۔ (ترمذی، ابنِ ماجہ)

قربانی نہ کرنے کی وعید

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

” جوشخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ بھٹکے” ۔ ( مسند احمد، ابنِ ماجہ)

قربانی کا نصاب

قربانی کا نصاب وہی ہے جوکہ زکوٰۃ کا ہے اور وہ ہے ساڑھے باون تولہ چاندی یا اسکی قیمت اور ساڑھے سات تولہ سونا یا اسکی قیمت۔

لہٰذا اگر کسی شخص کے پاس اس کی ضرورت سے زائد رقم یا کوئی سامان اور دوسری چیزیں ہوں جنکی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر بنتی ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔  

اسی طرح اگر کسی عورت کا مہر ، زیور یا استعمال سے زائد کپڑے اور برتن وغیرہ اگر نصاب کی مالیت کو پہنچے ہوں تو اس پر قربانی واجب ہے۔

جب تک بندہ صاحبِ نصاب ہے ہر سال قربانی کرنا واجب ہے۔

گھرکے جتنے افراد صاحب نصاب ہوں ان سب پر قربانی واجب ہے۔

اگر کوئی شخص صاحبِ نصاب نہیں ہے  اور پھر بھی قربانی کرتا ہے تو یہ نفلی قربانی ہے اور اسکا بہت ثواب ملتا ہے۔

قربانی کا وقت

ذالحجہ کی دس تاریخ سے لیکر بارہ تاریخ کے غروبِ آفتاب تک قربانی کی جاسکتی ہے۔

عید کا پہلا  دن  یعنی دس ذی الحجہ کا دن قربانی کے لئے زیادہ فضیلت والا ہے پھر ترتیب وار ۱۱ اور ۱۲ ذی الحجہ۔

قربانی دن رات میں کسی وقت بھی کی جاسکتی ہے۔ زوال یا آدھی رات کا کوئی مسئلہ نہیں ہے البتہ اگر رات کے وقت روشنی کا انتظام نہ ہو اور اندھیرے کی وجہ سے رگوں کے کٹنے کا صحیح اندازہ نہ ہوسکتا ہو تو اس حالت میں قربانی کرنا مکروہ ہے۔

پورے شہر میں کہیں بھی عید کی نماز ادا کرلینے کے بعد قربانی جائز ہوجاتی ہے۔ اگر عید کی نماز سے پہلے قربانی کر لی تو وہ درست نہیں ہے بلکہ نماز پڑھ کر دوسرا جانور ذبح کرنا لازمی ہے۔

اگر قربانی کی تین ایام میں قربانی  نہ کرسکا تو پھر قربانی کی قیمت کا صدقہ کردے او ر اپنی سستی اور کوتاہی پر توبہ و استغفار کرے۔

اگر قربانی کا جانور خریدا ہوا تھا مگر کسی وجہ سے ایام قربانی میں ذبح نہ کرسکا تو اس جانور کو صدقہ کردے اسے ذبح کرکے استعمال کرنا درست نہیں ہے۔

قربانی کا جانور ذبح کرنا

قربانی کے ایام میں قربانی کا جانور ذبح کرنا ضروری ہے۔ زندہ جانور کسی کو دے دینے سے قربانی  یا قربانی کی قیمت دے دینے سے قربانی ادا نہیں ہوتی اس لئے بعض ایسے ادارے جو قربانی پر یقین نہیں رکھتے مگر مالی مفادات کے حصول کے لئے مسلمانوں سے قربانی کے جانور کی قیمت وصول کرکے رفاہی کاموں میں خرچ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں قیمت ادا کرنے سے قربانی کا وجوب ساقط نہیں ہوگا۔

قربانی کا جانور خود ذبح کرنا افضل ہے اور اگر بے پردگی کا اندیشہ نہ ہو تو خواتین  بھی اپنے ہاتھ سے جانور ذبح کرسکتی ہے۔

بعض لوگ ذبح کرنے کے لئے کسی بزرگ کی تلاش کرتے ہیں یا دعاؤں کی کتابیں ڈھونڈتے ہیں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ ذبح کی مسنون دعائیں پڑھ لے تو اچھی بات ہے مگر لازمی نہیں۔

قربانی کا جانور قبلہ رُخ لٹا کر دل میں قربانی کی نیت کرکے  بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر ذبح کردینا کافی ہے۔

ذبح کرتے وقت تیز چھری استعمال کرنی چاہیے اور پھرتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ جانور کو تکلیف نہ ہو۔

قربانی کی مسنون دُعا

Qurbani Ki Masnoon Dua

 

قربانی کے جانور

ہر حلال جانور کی قربانی نہیں ہوسکتی بلکہ بکرا، بکری، دنبہ ، بھیڑ، گائے، بھینس ، بیل ، اونٹ اور اونٹنی کی قربانی ہوسکتی ہے۔

گائے بیل ، بھینس اور اونٹ  وغیرہ میں سات حصے ہوسکتے ہیں جبکہ بکری ، بکرا، دنبہ یا بھیڑ ایک آدمی کی طرف سے کافی ہوسکتی ہے۔

گائے وغیرہ میں شریک تمام افراد قربانی کی نیت سے شرکت کریں، کوئی غیر مسلم (جیسے قادیانی وغیرہ) اگر حصے دار بن گیا  یا قربانی کا اعتقاد نہ رکھنے والا شریک ہوگیا تو تمام شرکاء کی قربانی غیر مقبول ہوگی۔ اس لئے شرکاء کا انتخاب احتیاط سے کیا جائے۔

ایک حصے میں دو یا تین افراد شریک نہیں ہو سکتے ایک حصہ کسی ایک فرد کی طرف سے متعین کرنا لازمی ہے۔

بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ چھ حصے دار ہوگئے ایک حصہ رہ گیا تو سب نے مل کر وہ حصہ لے لیا اور تمام حصے داروں نے مل کر رقم جمع کرکے اس حصے کی قیمت ادا کردی یہ طریقہ صحیح نہیں ہے۔ اگر وہ حصہ کسی ایک شخص نے رکھ لیا  یا حضورﷺ یا کسی اور بزرگ کی طرف سے اس کی قربانی کی نیت کر لی اور سب نے ملکر تبرعاً اس حصے کی رقم ادا کردی تو اس طرح کرلینا درست اور صحیح ہے۔

گابھن گائے وغیرہ کی قربانی بلا کراہیت جائز ہے۔ اگر پہلے معلوم ہوجائے اور اس کی جگہ دوسرا جانور تبدیل کر لیں تو بہتر ہے۔ بچہ اگر زندہ برآمد ہو تو اسے بھی ذبح کردیں اس کا گوشت قابل استعمال ہو تو قربانی کے گوشت میں شامل کرلیں ورنہ دفن کردیں۔

عیب دار جانور کی قربانی

حضورؐ  سے پوچھا گیا کہ قربانی میں کس قسم کے جانور سے بچا جائے؟ تو آپؐ نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا  ، چار قسم کے جانوروں سے

لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن اتنا واضح ہو کہ وہ زمین پر پاؤں ٹکا کر چل نہ سکتا ہو اور قربان گاہ تک چل کر بھی نہ جاسکتا ہو۔

 کمزور بینائی والا جسکی ایک آنکھ نہ ہو یا ایک آنکھ کی کم ازکم تہائی بینائی ضائع ہو چکی ہو۔

بیمار جانور جس کی ہڈیوں کا گودا ختم ہو چکا ہو۔

بوڑھا جانور جسکی ہڈیوں کا گودا ختم ہو چکا ہو۔

اس کے علاوہ ایک تہائی یا اس سے زیادہ کان کٹا ہوا ہونا  بھی عیب ہے۔ کانوں کا پیدائشی طور پر نہ ہونا بھی عیب ہے البتہ چھوٹے کان عیب نہیں ہے۔

سینگ کا خول ٹوٹ جانا عیب نہیں ہے البتہ اگر سینگ کا اندر کا حصہ ایک تہائی یا اس سے زائد کا ٹوٹا ہوا ہو تو عیب ہے۔ بدھیا (خصی) ہونا عیب نہیں ہے بلکہ خوبی ہے۔ حضورﷺ بدھیا جانور قربانی کے لئے منتخب فرمایا کرتے تھے۔

قربانی کے جانور کی کھال

کھال کو اپنے ذاتی استعمال میں لاسکتے ہیں مثلاً جائے نماز، جیکٹ، جوتا یا بیگ وغیرہ بنواکر استعمال کرنا۔

قربانی کی کھال کسی دوست کو ہدیہ بھی کی جاسکتی ہے بشرطیکہ وہ اسے اپنے ذاتی استعمال میں لائے۔ قربانی کی کھال کی قیمت غرباء و مساکین کا حق ہے یہ زکوٰۃ کے مستحق کو دی جاسکتی ہے۔ کھال بیچنے کی صورت میں قیمت صدقہ کرنا لازمی ہے۔ قربانی کی کھالوں سے ہسپتال ، مسجد یا مدرسہ تعمیر کرنا جائز نہیں۔

اگر کسی غریب کو قربانی کی کھال کی قیمت کا مالک بنادیا گیاہو تو اسے کسی دینی یا رفاہی کام میں حرچ کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اگر وہ خوشی سے ہسپتال یا مدرسہ کی تعمیر میں اس کو خرچ کرنا چاہیے تو کرسکتا ہے۔

قربانی کی کھال کی قیمت سے مریضوں کے لئے دوا خریدی جاسکتی ہے۔ البتہ ڈاکٹر کی فیس یا لیبارٹری چارجز و غیرہ قربانی کی کھالوں کی قیمت سے اپنے طور پر ادا کرنا صحیح نہیں ہے۔ حاجت مند مریض کو وہ رقم دے دیں تاکہ وہ اپنے ہاتھ سے ادائیگی کرسکے۔

ایسے غریب کو قربانی کی کھال نہ دیں جو ٹی وی، وی سی آر یا کسی دوسرے ناجائز کامیں اسے صرف کرے۔

مدرسہ کے طلباء اور مجاہدین کے اخراجات بھی قربانی کی کھالوں کی قیمت سے پورے کئے جاسکتے ہیں۔

دیندار غریب آدمی کو دینے میں دہرا ثواب ہے۔ غریب پروری بھی ہے اور دینداری میں معاونت اور مدد بھی۔

اپنے والدین ، بیوی اور اولاد کے علاوہ تمام غریب رشتہ داروں کو قربانی کی کھال دی جاسکتی ہے۔

کھال کو صحیح مصرف تک پہنچانا قربانی کرنے والے کی ذمہ داری ہے۔ لہٰذا کسی مدرسہ یا دینی تنظیم کے نمائندہ یا غریب کا انتظار کرنے کے بجائے خود پہنجانے کا انتظام کرنا چاہیے۔