The Temple of Artemis – ارٹیمس کا مندردُنیا کے سات عجائب میں سے ایک عجوبہ

The Temple of Artemis - آرٹیمس کا مندر

The Temple of Artemis – ارٹیمس کا مندر

آرٹیمس کا مندر جو کہ ڈیانا کا مندر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دُنیا کے سات قدیم  عجوبوں میں سے ایک عجوبہ ہے۔ یہ مندر یونانی دیومالہ کی دیوی “آرٹیمس ” کے نام پر وقف کیا گیا تھا۔ یہ مندر قدیم شہر ایفی سس  میں واقع تھا۔ یہ شہر موجودہ ترکی کے مشہور شہر “ازمیر” کے جنوب میں ۷۵ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔

اس مندر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی آخری تباہی سے پہلے اس کو تین مرتبہ مکمل تعمیر کیا گیا۔ ساتویں صدی قبل مسیح میں اس علاقے میں شدید سیلاب آیا جس نے اس مندر کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ کہتے ہیں کہ سیلاب کے بعد جب پانی خشک ہوا تو اس مندر کی حالت یہ تھی کہ اس کے اوپر ریت کا ڈھیر بن گیا تھا۔ یہ ریت اس کے فرش سے ایک میٹر اوپر تک چڑھ گئی تھی۔

آرٹیمس کا مندر  ۱۱۵ میٹر چوڑا تھا اور اس کو سنگِ مرمر سے بنایا گیا تھا۔ پوری عمارت کو ۱۲۷ ستونوں پر کھڑا کیا گیا تھا۔ یہ ستون ۱۷ میٹر لمبے بنائے گئے تھے۔

دوسری مرتبہ ۵۵۰ قبل مسیح کے لگ بھگ جب مکمل تباہی کے بعد اس کو دوبارہ تعمیر کیاگیا تو پھر اس کو ۱۱۵ میٹر لمبائی میں اور ۴۶ میٹر چوڑائی میں تعمیر کیا گیا۔ اس میں ۱۳ میٹر لمبے ستون بنائے گئے، ان ستونوں کی دو قطاریں بنائی گئیں۔ اب یہ مندر باہر سے آنے والے سیاحوں، بادشاہوں اور تاجروں کے لئے ایک پرکشش مقام بن گیا ۔ جو لوگ یہاں پر زیارت کے لئے آتے  وہ آرٹیمس کے احترام میں اپنے نذرانے یہاں ضروردے کر جاتے ۔ پھر یہ مندر ان لوگوں کے لئے بھی ایک پرکشش جگہ بن گیا جن کو کسی سنگین جرم کی پاداش میں سزا دی گئی ہوتی اور وہ یہاں پر پناہ لینے کے لئے بھاگ آتے۔

مندر کی تعمیر کو مکمل ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ ہی گزر گیا تھا کہ ۳۵۶ قبل مسیح میں ایک شخص جس کا نام ہیروسٹراس تھا، نے اس مندر کو آگ لگادی۔ اس آگ لگانے کی جو وجہ بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ شخص اپنے آپ کو مشہور کرنا چاہتا تھا۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو، آگ لگنے کی وجہ سے یہ مندر ایک بار پھر تباہ ہوگیا۔ لوگوں نے اس شخص کو پکڑا اور اسے سزائے موت دے دی گئی اور اس کا نام کہیں لکھنے یا بولنے پر بھی پابندی لگادی گئی۔ یہ وہ دور تھا جس میں سکندر اعظم پیدا ہوا۔

سکندرِ اعظم جب حکومت میں آیا تو اس نے اس مندر کو تعمیر کرنے کا ارادہ کیا اور وہاں کے رہنے والے لوگوں سے اس بارے میں بات کی تو لوگوں نے اس کو اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ پھر لوگوں نے سکندرِ اعظم کی وفات کے بعد ۳۲۳ قبل مسیح میں اس کی تعمیر شروع کی جو کہ کئی سال تک جاری رہی۔ اس دفعہ مندر کو پہلے سے بڑا بنایا گیا۔ اب اس کی لمبائی ۱۳۷ میٹر ، چوڑائی ۲۹ میٹر اور اونچائی ۱۸ میٹر رکھی گئی اور اس میں ۱۲۷ ستون بنائے گئے۔

اس کے بعد ۲۶۸ قبل مسیح میں یہ مندر پھر تباہ کردیا گیا۔ یہ تباہی اس وقت ہوئی جب اس علاقے پر گوتھ قبیلے نے حملہ کردیا۔ انہوں نے اس علاقے کے کئے مہذب شہروں کو بھی آگ لگاکر تباہ کردیا۔ اس کے بعد پھر اس مندر کو کب تعمیر کیا گیا اس بارے میں کوئی تاریخی حقائق دستیاب نہیں ہے ۔ بعد میں اس کا نام و نشان بھی مٹ گیا۔

موجودہ زمانے میں اس مندر کو ڈھونڈنے کا کام شروع کیا گیا تو اس کے آثار ۱۸۶۹ میں اس جگہ کی کھدائی کے دوران ملے۔ یہ کھدائی کا کام ۱۸۷۴ء تک جاری رہا۔ اس دوران اس مندر کی بہت سے باقیات دریافت ہوئیں۔ ان باقیات کو برٹش میوزیم میں رکھا گیا ہے۔

The Parthenon was dwarfed by the Temple of Artemis. Built around 550 B.C at Ephesus in what is now Turkey. Anti pater of Sidon, who had seen all the wonders of the world, declared. “When I saw the sacred house of Artemis that lowers to the clouds. The other wonders were placed in the shade” According to Pliny, its base was 425 by 225 feet, it was 60 feet high and it look 120 years to build. It was one of the first temples made of marble and was decorated with bronze statues by the most skilled artists of the time. In 356 B,C, the temple burned to the ground. It was rebuilt over the next twenty years, but was destroyed again by the Goths in A.D. 262. The remains of some of the second temple’s sculptures can be seen in the British Museum. Today a single column stands in a marshy field to remind visitors that there once stood one of the wonders of the ancient world.