حضرت سلیمان علیہ السلام مختصر حالاتِ زندگی
حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے، جبکہ یہ دونوں پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ یہودی اور عیسائی سلیمان علیہ السلام کو پیغمبر نہیں مانتے، بلکہ صرف ایک بادشاہ مانتے ہیں۔ قرآن میں صاف طور پر بیان کیا گیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے ۔ سورۃ النساء ۱۶۳
ترجمہ: یقیناًہم نے آپ کی طرف اس طرح وحی کی ہے جیسے نوح علیہ السلام اور ان کے بعد والی انبیاء کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف۔ اور ہم نے داؤد علیہ السلام کو زبور عطاء فرمائی۔
حضرت سلیمان ؑ بچپن ہی سے بہت زیادہ ذہین اور فیصلہ کرنے کے ماہر تھے۔ دیکھئے سورۃ الانبیاء ۷۸-۷۹
ترجمہ: اور داؤد اور سلیمانؑ کو یاد کیجئے جبکہ وہ کھیت کے معاملہ میں فیصلہ کررہے تھے کہ کچھ لوگوں کی بکریاں رات کو اس میں چرچگ گئی تھیں، اور ان کے فیصلے میں ہم موجود تھے، ہم نے اس چیز کی سمجھ حضرت سلیمانؑ کو دے دی تھی، ان تمام کو ہم نے حکومت اور علم دیا تھا، ہم نے داؤدؑ کو پہاڑوں کو قبضے میں کرنے کی طاقت دی تھی، وہ آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے تھے، اسی طرح پرندے بھی، ہمارے لئے ایسا کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ دو آدمی حضرت داؤدؑ کے پاس آئے اور اپنا جھگڑا بیان کرنے لگے، مدعی کہنے لگا کہ اس آدمی کے بھیڑوں نے میرے کھیت کی ساری فصل تباہ کردی ۔
حضرت داؤدؑ نے کہا کہ اس آدمی کی فصل کی قیمت دوسرے آدمی کے مینڈھوں کے قیمت کے برابر ہے اسلئے مدعی اس آدمی کی ساری مینڈھیں لے لے، یہ اسکی فصل تباہ ہونے کا معاوضہ ہوگا۔ اس وقت حضرت سلیمان ؑ گیارہ سال کے تھے اور اپنے والد کے قریب ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ سلیمانؑ نے عرض کیا یہ فیصلہ تو ٹھیک ہے مگر میرا مشورہ یہ ہے کہ اس آدمی کی مینڈھیاں اس دوسرے آدمی کو عارضی طور پر دی جائیں یہ آدمی ان کے دودھ اور اون استعمال کرے، اس دوران میں دوسرا آدمی اسکے کھیت میں کام کرے یہاں تک کہ فصل پہلے کی طرح ہوجائے۔ پھر اس وقت کھیت کے مالک کو کھیت دے دیا جائے اور مینڈھوں کے مالک مینڈھے واپس دے دی جائیں۔ حضرت داؤدؑ اپنے بیٹے کے اس مدبرانہ فیصلے سے بہت خوش ہوئے۔
امام بغوی کہتے ہیں کہ حضرت داؤدؑ جب وفات پاگئے تو اس وقت سلیمانؑ کی عمر ۱۳ سال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کی سلطنت اور نبوت دونوں حضرت سلیمانؑ کو عطاء کردی۔ پھر حضرت سلیمانؑ نے چالیس سال تک حکومت کی اور اپنی حکومت کے چوتھے سال بیت المقدس کی تعمیر شروع کی۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کو بھی بہت ساری غیرمعمولی فضائل سے نوازا جس میں سے کچھ ہم یہاں بیان کریں گے۔
۱۔ اپنے والدحضرت داؤدؑ کی طرح آپ بھی جانوروں اور پرندوں کی بولیاں سمجھ لیتے تھے۔ سورۃ النمل ۱۵-۱۶
ترجمہ: اور ہم نے یقیناً داؤدؑ اور سلیمانؑ کو علم دے رکھا تھا اور دونوں نے کہا، تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان دار بندوں پر فضیلت عطاء فرمائی ہے۔ اور داؤدؑ کے وارث سلیمانؑ ہوئے اور کہنے لگے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں عطاء کی گئی ہیں، بیشک یہی ہے اللہ کا نمایاں فضل۔
۲۔ ہواؤں کو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کے تابع کردیا تھا۔ سورۃ الانبیاء ۸۱
(ترجمہ) ہم نے تندوتیز ہواؤں کو سلیمانؑ کے تابع کردیا جو اس کے فرمان کے مطابق اس زمین کی طرف چلتی تھی جہاں ہم نے برکت دے رکھی تھی۔
سورۃ ص ۳۶ (ترجمہ) ہم نے ہواؤں کو ان کے قبضے میں دیا تھا، وہ ان ہی کے حکم سے چلتی تھی بڑی نرمی کے ساتھ وہ جہاں چاہتے تھے اس کو پہنچا دیتے تھے۔
سورۃ سبا ۱۲ (ترجمہ) ہوائیں حضرت سلیمانؑ کے لئے مسخر تھیں ایک مہینہ کا سفر صبح کے وقت یا صرف شام کے وقت طے کرلیا کرتے تھے۔
یہاں پر قرآن نے تین چیزیں بتائی ہیں۔
(ا) ہواؤں پر آپ کو مکمل اختیار تھا۔
(ب) بہت تیز ہوائیں بھی آپ کے لیے بہت ہی آرام دہ اور پرسکون رفتار سے چلتیں۔
(ت) آرام دہ رفتار کے باوجود ہواؤں کے ذریعے وہ مہینوں کا سفر ایک دن میں طے کرلیا کرتے تھے، اسی طرح ایک مہینہ کا سفر صرف شام میں طے کرلیا کرتے تھے۔
۳۔ حضرت سلیمانؑ کو عظیم الشان عمارات اور بڑے بڑے قلعے بنانے کا بہت شوق تھا، اللہ نے انکے لئے پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے نکال کر عمارات بنانے کا عمل آسان کردیا۔ سورۃ صبا ۱۲
(ترجمہ) اور ہم نے سلیمانؑ کے لئے ہوا کو مسخر کردیا کہ صبح کی منزل اس کی مہینہ بھر کی ہوتی تھی اور شام کی منزل بھی اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ بہا دیا، اور اس کے رب کے حکم سے بعض جنات اس کے ماتحتی میں اس کے سامنے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو بھی ہمارے حکم سے سرتابی کرتا ہم اسے بھڑکتی ہو ئی آگ کے عذاب کا مزہ چکھاتے تھے۔
۴۔ خضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت کی چوتھی خصوصیت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے تمام جانوروں، پرندوں اور جنوں کو ان کے قبضے میں دے رکھا تھا، کیونکہ سلیمان علیہ السلام نے اللہ سے دُعا کی تھی کہ انہیں ایسی حکومت دی جائے کہ اسکے بعد ایسی حکومت کسی کو نہ ملے ۔ سورۃ ص ۳۵
(ترجمہ) خضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا “اے میرے رب تو مجھے معاف کردے اور مجھے ایسی بادشاہت دے جو میرے بعد کسی کو سزاوار نہ ہو بے شک تو ہی عطا کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی جیسا کہ اوپر مذکور ہے جنات خضرتِ سلیمان علیہ السلام کے لئے ہر قسم کے کام کردیا کرتے تھے ۔ سورۃ صبا ۱۳
(ترجمہ) جو کچھ سلیمان جاہتے ہو جنات تیار کردیتے مشلاً قلعے اور مجسمے اور حوضوں کے برابر لگن اور چولہوں پر جمی ہوئی مضبوط دیگیں، اے آلِ داؤد اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو، میرے بندوں میں سے بہت کم لوگ شکرگذار ہوتے ہیں۔
حضرتِ سلیمان علیہ السلام نے ایک اہم کام جنوں کو سپرد کیا وہ یہ کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کی تعمیر کریں، جو بہت عظیم الشان اور وسیع و عریض عمارت ہو یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جس طرح خضرت ابرہیم علیہ السلام نے مکہ میں کعبہ کی تعمیر نوکی تھی اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجداقصیٰ کی تعمیر نو کی تھی۔
ایک مرتبہ حضرتِ ابوذرِ غفاریؓ نے خضرت محمدﷺ سے پوچھا کہ دنیا میں سب سے پہلے کونسی مسجد بنی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ” مسجدِ حرام” ۔ خضرت ابوذرؓ نے پوچھا ” اور کونسی مسجد اسکے بعد تعمیر ہوئی؟ آپ ﷺ نے مرمایا ” مسجدِ اقصیٰ”۔ ابوذرؓ نے پھر پوچھا “دونوں کے درمیان کتنے وقت کا فاصلہ ہے؟” آپ ﷺ نے کہا ” چالیس سال”۔
۵۔ ایک مرتبہ خضرت سلیمان علیہ السلام نے چیونٹیوں کی بات چیت سنی جسکا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ سورۃ نمل آیات نمبر ۱۷ تا ۱۹
ترجمہ۔ اور ایک مرتبہ سلیمان علیہ السلام کے سامنے ان کے تمام لشکر جو جنات، انسان اور پرند پر مشتمل تھے جمع کئے گئے ۔ ہرہر قسم کی الگ الگ درجہ بندی کردی گئی۔ جب وہ چیونٹیوں کے میدان مین پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیوں ! اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ، ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں سلیمان علیہ السلام اور اس کا لشکر تمہیں روند ڈالے۔ اس کی اس بات سے حضرتِ سلیمان علیہ السلام مسکرا کر ہنس دیئے اور دُعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان تعمتوں کا شکر بجالاؤں جو تونے مجھ پر انعام کی ہیں، اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے اور مجھے اپنے رحمت سے نیک بندوں میں شامل کرلے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرتِ سلیمان علیہ السلام کے معجزوں کو بیان کیا ہے، کہ سوچئے کہ وہ ایک انتہائی چھوٹی مخلوق چیونٹی کی آواز کو بھی بہت دور سے سن اور سمجھ سکتے تھے۔ ان معجزات سے ہمارا ایمان اور قوی ہوتا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بہت طاقتور ہے اور وہ اپنے چنے ہوئے بندوں پر طرح طرح کے انعام و اکرام کرتے ہیں۔ چیونٹیوں کے اس قصہ میں اللہ تعالیٰ کی کئی نشانیاں ہیں۔ اس اہمیت کی وجہ سے اس سورۃ کا نام سورۃ النمل رکھ دیا گیا۔ (النمل کے معنی چیونٹی کے ہیں)۔
یہاں پر یہ چیز بھی قابلِ ذکر ہے کہ بائیبل کا رجمہ کرنے والوں نے خضرتِ سلیمان علیہ السلام کے بارے میں بہت سارے من گھڑت نازیبا اور قابلِ شرم واقعات نقل کئے ہیں ۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام ترجمہ کرنے والوں کو قُرآن کی تعلیمات سیکھنے سمجھنے اور ماننے کی توفیق دے۔ (آمین)