توجہ فرمائیں۔۔۔

پاکستان ورچوئل لائبریری" آپ کو مفت آن لائن کتابوں کی سہولت عرصہ 15 سال سے فراہم کررہی ہے۔ جس کی ڈومین ، ہوسٹنگ اوردیگر انتظامات پر سالانہ پانچ لاکھ سے زیادہ کا خرچہ آتا ہے۔ حالیہ عرصہ میں ڈالر کی قدر میں بے تحاشہ اصافے کی وجہ سے لائبریری کو جاری رکھنے میں مالی مشکلات کا سامنا ہے، اس لئے پہلی بار ہم آپ سے مالی تعاون کی اپیل کررہے ہیں۔ آپ کے بھیجے ہوئے سو یا پچاس روپے بھی اس خدمت کو جاری رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔    مالی تعاون کے لیے یہاں کلک کریں۔

The Stonehenge History in Urdu

The Stonehenge History in Urdu

پتھروں کا عظیم دائرہ پتھر کے دور کا ایک معمہ

یقین کے ساتھ کوئی بھی نہیں کہ سکتا کہ پتھروں کا وسیع و عریض دائرہ نما قلعہ جو سالسری کے میدان میں سر اٹھائے کھڑا ہے وہ کیوں تعمیر کیا گیا تھا یا اس تعمیر کے لئے پتھر کہاں سے آئے تھے۔

دستیاب حقائق کے مطابق یہ تعمیر پتھر کے دور کے آخری دورانیے اور کانسی کے دور کے انتدائی دورانیے کے دوران سرانجام دی گئی تھی۔ باالفاظِ دیگر 1800 اور 1400 قبل مسیح کے درمیان سرانجام دی گئی تھی اور یہ کہ کچھ نام نہاد نیلے پتھر بروک سائیر سے لائے گئے تھے جبکہ دیگر پتھر قریبی علاقے سے حاصل کئے گئے تھے۔ یہ قدرے کم رومانوی وضاحت ہے اس وضاحت کی نسبت جو جیو فری ڈی مون ماؤتھ نے 1136ء میں پیش کی تھی جبکہ اس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان پتھروں  کو جادو کے زور پر آئر لینڈ سے لایا گیاتھا اور یہ کارنامہ جادوگر مرلن نے سرانجام دیا تھا۔ جو شاہ آرتھر کے دربار کا  شاہی جادوگر تھا۔ جدید معلومات اس کھدائی پر مبنی ہے جو 1919ء میں آثار قدیمہ کی سوسائٹی نے سرانجام دی تھی اور ان معلومات کو عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

اس دور میں پتھروں کے دائرے غیر معمولی اہمیت کے حامل نہ تھے اور یہ برطانیہ اور فرانس میں دیگر مقامات پر بھی موجود ہیں۔ یہ تصور کرنا بھی عین ممکن ہے کہ یہ مذہبی نوعیت  کے وضاحت سرانجام دیتے تھے کیونکہ ابتدائی دور کے کئی ایک مذہب ستاروں اور سیاروں پر بنیاد کرتے تھے۔

پتھروں کے اس دائرے میں دلچسپ اور قابل دید وہ مہارت ہے جو گولائی کے حامل نٹسل کی تعمیر میں استعمال کی گئی ہے۔اس تعمیر کا ڈیزائن گولائی کا حامل ہے اور تعمیر کے تمام تر ڈھانچے کے ارد گرد گولائی کی حامل ایک خندق ہے جس  کے کنارے کے اندر 56 گڑھے وقع ہیں۔ بیرونی کنارے اور اندرونی پتھروں کے دائروں کے درمیان دو مزید حلقے ہیں۔ یہ کہنا ممکن نہیں کہ یہ دفاعی نکتہ نگاہ کے طور پر تعمیر کئے گئے تھے یا سجاوٹی نکتہ نظر کے تحت تعمیر کئے گئے تھے۔ پتھر بذات خود دو دائروں پر مشتمل ہے۔ بیرونی دائرہ سارسن پتھروں پر مشتمل ہے جبکہ اندرونی دائرہ نیلے پتھروں پر مشتمل ہے۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ تعمیر تین ادوار میں مکمل کی گئی تھی۔ پہلا دور 1800 قبل مسیح کا دور تھا اور دوسرا دور 1700 قبل مسیح کا دور تھا اور یہ وہی دور تھا جبکہ تعمیر میں نیلے پتھروں کا اضافہ کیا گیا تھا۔ تعمیر کا حتمی دور وہ دور تھا جس کے دوران اصل دائروں کی تعمیر نورسارسن پتھروں کے ساتھ سرانجام دی گئی تھی۔

سارسن پتھروں سے تعمیر کردہ دھانچہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ پتھر قابل غور حد تک بڑے ہیں۔ ان کی اونچائی 4 میٹر  یعنی 13 فٹ اور وزن 25 ٹن ہے۔ ان کی سطح پر ہتھوڑوں سے کام سرانجام دیا گیا ہے جو کاریگروں کی کاریگری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ کاریگر مقامی ہوں یا پھر انہیں باہر سے بلوایا گیا ہو۔ اس تعمیر کے بارے میں حقیقت سے کبھی پردہ نہیں اتھا لیکن اس کے باوجود بھی یہ دنیا میں پتھروں کے دائروں کا ایک عظیم معمہ ہے۔

اس تعمیر کے بارے میں حقائق:

بیرونی خندق:- 97 میٹر یعنی 320 فٹ قطر کا ہے۔

اندرونی دائرہ:- 30.5 میٹر یعنی 100 فٹ قطر  کا حامل

سارسن پتھر:- وزن میں 25 ٹن اور اونچائی میں 13 فٹ

ٹرائی لی تھونز:- وزن میں 50 ٹن اور اونچائی 24 فٹ

Stonehenge is one of the most fascinating of the wonders of the world because we know so little about it. What was the purpose of this great circle of huge stones in southern England? Who were the people who created it? How did they manage such a feat? Scientists have discovered that construction was begun 5000 or more years ago and that it continued, in three separate phases, over the next 1,000 to 1,400 years, They have discovered that some of the huge stones came from 240 miles away in Wales, and that some of the stones are aligned with the summer solstice sunrise and sunset of the winter solstice. But many of the questions surrounding Stonehenge and many other similar huge stone rings that exist in the United Kingdom are ones that we will never be able to answer.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *