توجہ فرمائیں۔۔۔

پاکستان ورچوئل لائبریری" آپ کو مفت آن لائن کتابوں کی سہولت عرصہ 15 سال سے فراہم کررہی ہے۔ جس کی ڈومین ، ہوسٹنگ اوردیگر انتظامات پر سالانہ پانچ لاکھ سے زیادہ کا خرچہ آتا ہے۔ حالیہ عرصہ میں ڈالر کی قدر میں بے تحاشہ اصافے کی وجہ سے لائبریری کو جاری رکھنے میں مالی مشکلات کا سامنا ہے، اس لئے پہلی بار ہم آپ سے مالی تعاون کی اپیل کررہے ہیں۔ آپ کے بھیجے ہوئے سو یا پچاس روپے بھی اس خدمت کو جاری رکھنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔    مالی تعاون کے لیے یہاں کلک کریں۔

The Parthenon – پارتھینون یونانی دیوی ایتھنا کا مندر

The Parthenon - پارتھینون یونانی دیوی ایتھنا کا مندر

The Parthenonپارتھینون یونانی دیوی ایتھنا کا مندر

پارتھینون ، دُنیا کے سات قدیم عجائبات میں سے ایک عجوبہ۔ پارتھینون یونانی دیوی ایتھنا کا مندر ہے جسے موجودہ یونانی دار الحکومت ایتھنز کے مشہور زمانہ ایکروپولس میں 5 ویں صدی میں تعمیر کیا گیا۔ یہ قدیم یونان کی عمارات میں سب سے زیادہ بہتر حالت میں ہے۔ اس میں موجود بت یونانی آرٹ کے عروج کی داستانیں بیان کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ سیاحوں کو اپنی جانب کھینچنے والے یونانی آثار قدیمہ پارتھینون قدیم یونان اور ایتھنز کی جمہوریہ کی علامت اور دنیا کی عظیم ثقافتی یادگاروں میں سے ایک ہے۔ یونانی وزارت ثقافت اس کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
قدیم پارتھینون 480 قبل مسیح میں فارسیوں کے حملے میں تباہ ہو گیا تھا جس کے بعد موجودہ پارتھینون کو اس قدیم مندر کی جگہ تعمیر کیا گیا۔ تمام قدیم یونانی مندروں کی طرح پارتھینون بھی خزانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ چھٹی صدی عیسوی میں پارتھینون مسیحی گرجے میں تبدیل کر دیا گیا۔ 1460ء کے اوائل میں عثمانیوں کے ہاتھوں ایتھنز اور یونان کی فتح کے بعد اسے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ 28 ستمبر 1687ء کو عثمانیوں کے اسلحہ خانے میں دھماکے سے پارتھینون کو شدید نقصان پہنچا۔ 1806ء میں تھامس بروس عثمانیوں کی اجازت سے بچنے والے مجسموں کو اپنے ساتھ لے گیا۔ یہ مجسمے 1816ء میں برٹش میوزیم، لندن کو فروخت کر دیے گئے جہاں یہ آج بھی موجود ہیں۔ یونانی حکومت اس مجسموں کی یونان واپسی کا مطالبہ کرتی رہی ہے تاہم ابھی تک اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
عثمانیوں کے دور میں اس عمارت میں ایک مینار بھی شامل کیا گیا تھا اور 17 ویں صدی کے یورپی سیاحوں نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے کہ عثمانیوں نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے پارتھینون سمیت کسی بھی آثار قدیمہ کو نقصان نہیں پہنچایا اور یہ بالکل بہترین حالت میں ہیں۔

امریکہ میں قائم پارتھینون کی نقل

امریکہ میں قائم پارتھینون کی نقل

 

سن ۱۹۷۵میں یونانی حکومت نے یورپی یونین کے مالی و تکنیکی تعاون سے پارتھینون اور ایکروپولس کی دیگر عمارات کی بحالی کے منصوبے کا آغاز کیا۔ اِس وقت ایتھنز کے آثار قدیمہ کو سب سے زیادہ خطرہ 1960ء کی دہائی سے اب تک پھیلنے ہوئے شہر کی آلودگی سے ہے۔ اس کا سنگ مرمر تیزابی بارش اور گاڑیوں کی آلودگی سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کی ریاست ٹینیسی کے شہر نیشویل میں اصل پارتھینون کی طرح کی ایک عمارت بنائی گئی ہے۔ یہ عمارت 1897ء میں تعمیر ہوئی۔( معلومات کا ماخذ)

The Parthenon was built on the Acropolis,  the high point of Athens, between 449 to 432 B.C. A marble temple that got its name from the Greek word Marthena, meaning virgin, it was about 230 feet long and 100 wide and was built to house a huge gold and ivory statue of the goddess Athena, Patron of the Polish, or city state of Athens. The Parthenon contained other sculptures as well, and it is thought that all but the great statue of Athena were painted bright colors. In 296 B.C, the tyrant I ac hares used the gold from Athena’s statue to pay his army. In the fifth century A.D, the temple was converted into a Christian church, and in 1460 to a Turkish mosque. Much of the building was destroyed in 1687 when gunpowder the Turks stored in the temple exploded and in 1801 to 1803 the Turks sold much of the remaining sculpture to lard Fling, who sold them to the British Museum.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *