سلسلہ قصص الانبیاء: حضرت داؤد علیہ السلام
یروشلم سے دس میل دور جنوب کی سمت واقع بیت اللحم میں ایشا (تورات میں ی سیٰ) نامی ایک شخص رہتا تھا جو بھیڑ بکریاں چرایا کرتا تھا ۔ اس کے آٹھ بیٹے تھے ۔ ایشا کے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام داؤد تھا۔ یہ بچہ بچپن ہی سے اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کی بدولت پورے علاقے میں پسندیدہ نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کی شخصیت اتنی مسحورکن تھی کہ جو بھی اسے دیکھتا، اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ کتاب المعارف میں لکھا ہے کہ آپ کا رنگ سرح و سفید تھا اور خدوخال حسین تھے۔ گفتگو میں سلیقہ اور احترام تھا۔ قد پستہ، آنکھوں میں بھورا پن اور سر کے ایک گوشے میں گنج تھا۔
تاریخ ابنِ کثیر میں آپ کا شجرہ نسب یوں لکھا ہے : داؤد بن ایشا بن عوبد بن عابر بن سلمون بن ن حسون بن عونیا ارم بن حصر بن فارص بن یہودا اور بن یعقوب۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرتِ اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور حضرتِ ابرہیم علیہ السلام کے پوتے تھے۔ علامہ ابن جریر کے مطابق حضرت داؤد یہودا کی نسل سے ہیں۔ آپ کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت یعقوب کے بیٹے کے خاندان میں آپ ہی واحد شخصیت ہیں جو بہ یک وقت پیغمبر، رسول، صاحبِ کتاب اور بادشاہ تھے۔ آپؑ کو فنِ خطابت میں ملکہ حاصل تھا۔ آپ کا ایک ایک لفظ واضح اور حکمت سے پُر ہوتا تھا۔
حضرت داؤدؑ کو فلاخن (گوپھن) چلانے میں خاص مہارت حاصل تھی۔ وہ ہر وقت اپنے ساتھ ایک عصا، فلاخن اور ایک تھیلی رکھا کرتے تھے۔ جس میں پتھر ہوتے تھے۔ جنگل میں شیر کی سواری کرتے تھے۔ آپ شیر کا کان پکڑ کر اس پر سوار ہوتے اورشیر آپؑ کے سامنے سرجھکائے رہتا۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ جنگل سے گزررہے تھے کہ ایک پتھر سے آواز آئی: “اے داؤد! میں حجرِ ہارون ہوں۔ مجھ سے ہارون نے ایک شخص کو مارا تھا۔ مجھے اٹھا لیجئے ، میں آپ کے کام آؤں گا۔ “
آپؑ نے وہ پتھر اٹھایا اور کچھ دور چلے تھے کہ ایک اور پتھر بول اٹھا: ” میں حجرِ موسیٰ ہوں۔ میرے ذریعے موسیٰ کے ہاتھوں ایک شخص قتل ہوا تھا۔ مجھے اُٹھا لیجئے، میں آپ کے کام آؤں گا۔ “
اس پتھر کو بھی آپؑ نے اپنے تھیلے میں رکھا تھا کہ تیسرے پتھر نے صدا لگائی : “میں حجرِ داؤد ہوں جو نبی ہیں اور مجھ سے جالوت کو ماریں گے۔”
حضرت داؤدؑ نے اس پتھر کو بھی اٹھا کر اپنے تھیلے میں رکھ لیا۔
اس وقت ملک بھر میں جالوت کے بارے میں شاہی اعلان ہورہا تھا۔چنانچہ ان منادیوں کی آواز آپؑ کے کانوں تک بھی پہنچی۔جالوت ایک انتہائی ظالم اور طاقتور فلسطینی سردار تھا جو موجودہ اسرائیل اور فلسطینی علاقوں پر قابض تھا۔ وہ بنی اسرائیل سے نفرت کرتا تھا۔ اسرائیلیوں پر حق تعالیٰ کی جانب سے طالوت کو بادشاہت عطا ہوئی تھی، مگر جالوت نے اس سب کو تنگ کر رکھا تھا جس کی خبر بادشاہ کو مل گئی۔ بادشاہ نے جالوت سے نجات حاصل کرنے کے لئے تمام سرداروں کوبلایا۔ لوگ مختلف آراء پیش کرتےرہے۔ پھر طالوت کے ایک معتمد خاص نے کہا کہ ملک بھر میں یہ اعلان کرایا جائے کہ بنی اسرائیل میں سے جو شخص جالوت کو زیر کرلے گا ، اسے آدھی سلطنت دی جائے گی۔یہ تجویز سب کو پسندآگئی۔ منادیوں نے کہا گیا کہ وہ ملک بھر میں یہ اعلان عام کردیں۔ادھرحضرت داؤدؑ کے کان میں بھی یہ اعلان پڑا تو انھیں پتھروں والی بات یا د آگئی۔ وہ منادی کرنے والوں کے پاس گیا اور کہا : “میں جالوت کو قتل کروں گا۔”
یہ خبر جلد ہی بادشاہ کو مل گئی کہ ایک بہادر نوجوان نے یہ چلنج قبول کرلیا ہے۔ بادشاہ نے فوراً ہی اس نوجوان کو طلب کیا اور اس سے ملاقات کے بعد کہہ دیا کہ یہی نوجوان جالوت سے ٹکر لے سکے گا۔
اب فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا۔ اسرائیلی جالوت کی فوج اور جنگی سامان دیکھ کر پریشان ہوگئے اور اپنے بادشاہ سے کہا کہ آج ہم جنگ میں شریک نہیں ہونگے۔ تاہم حضرت داؤد ایک عام سپاہی کی حیثیت سے طالوتی لشکر سے نمودار ہوئے۔ اس وقت بھی ان کے ساتھ وہی تین چیزیں تھیں۔ دوسری جانب سے جالوت نکلا جو سر تا پا دھات میں چھپا ہوا تھا۔ دونوں آمنے سامنے کھڑے ایک دوسرے کو دعوتِ جنگ دے رہے تھے۔ حضرت داؤدؑ نے اپنے تھیلے میں فلاخن اور وہ پتھر نکالا جن نے کہا تھا کہ میرے ذریعے جالوت قتل ہوگا۔ آپ نے فلاخن میں اس پتھر کو لگایا اور جالوت کے سر پرمارا تو وہ مٹی کے ڈھیر کی مانند زمین پر آگرا۔ اس طرح فلسطینیوں کا یہ سورما حضرت داؤد ؑ کے ہاتھوں جہنم واصل ہوگیا۔ اس کا ذکرقرآن حکیم میں بھی آیا ہے: ” داؤد کے ہاتھوں جالوت قتل ہوا۔” ( سورہ بقرہ آیات 251)
پہلے تو قومِ یہود گنگ و حیران رہ گئی، پھر ان سب نے مل کر فلسطینیوں پر حملہ کردیا اور انہیں مار بھگا یا۔شاہی اعلان کے مطابق حضرت داؤدؑ کو آدھی سلطنت ملی اور شہزادی ع نیاہ سے آپ کی شادی بھی کردی گئی۔ اس کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام البشالوم تھا۔ یہ وہ بیٹا تھا جس نے بڑے ہوکر حضرت داؤدؑ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔
حضرت داؤد ؑ کا شمار انبیاء کے علاوہ سلاطین میں بھی ہوتا ہے۔ مگر یہ بادشاہت، ربِ کریم نے آپ کو خصوصی طور پرعطا کی تھی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” اے داؤد! ہم نے تمہیں زمین پر بادشاہ بنادیا ہے۔ تو لوگوں میں انصاف سے فیصلےکیا کرو اورخواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے راستے سے بھٹکا دے گی اورجو لوگ خدا کی راہ سے بھٹکتے ہیں، ان کے لئے سخت غذاب ہے کہ انہوں نے انصاف کے دن کو بھلادیا۔” (سورہ ص آیات 26)
آپؑ کی بعثت کا زمانہ حضرت موسیٰ ؑ سے 500 سال بعد کا ہے اور آپؑ سے حضرت عیسیٰ تک بارہ سو سال سے بھی زائد گزر چکے ہیں۔ بنی اسرائیل میں حضرت یعقوبؑ اوران کے بیٹے یوسفؑ کے بعد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونؑ صاحبِ کتاب وشریعت پیغمبر گزرے ہیں۔ ان کے بعد آنے والے پیغمبروں کی فہرست طویل ہے جن میں حضرت داؤدؑ مشہور و معروف ہوئے۔ حق تعالیٰ نے آپؑ کو زبور عطا کی۔زبور زبر کی جمع ہے جس کے معنی ” کتاب، عقل، تحریر اور نام کے ہیں۔”ایک اور لغات میں زبور کی معنی ” پارے، ٹکڑے اور حصے” کے ہیں۔
مسند احمد کی ایک روایت کے مطابق یہ مقدس کتاب ماہ رمضان کی 12 یا18 تاریخ کو عطا کی گئی تھی۔ قرآن حکیم اس مقدس کتاب کی تصدیق کرتا ہے۔ اس بارے میں ارشاد ہے : “اور ہم نے داؤدؑ کو زبور عطاءکی” (سورہ النساء آیت 163)
حضرت داؤدؑ کو کچھ مخصوص حالات و واقعات کی بناء پر 500 سالہ دور میں انبیائے سابقین پر فضیلت حاصل رہی جس کی تصدیق قرآن حکیم سے بھی ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ” یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو فضیلت دی ۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ نے بات کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں۔ (سورہ بنی اسرائیل آیات 55)
حضرت داؤد، اللہ تعالیٰ کے وہ جلیل القدر نبی ہیں جن میں تسبیح و تحمید کا وصف بہت زیادہ تھا۔ آپ ہروقت حق تعالیٰ کی تسبیح و تحمید میں مصروف رہتے تھے۔زبورکی تلاوت اتنی خوش الحانی سے فرماتے تھے کہ پرندے بھی آپ کا ساتھ دینے لگتے جس سے عجب سماں برپا ہوجاتا اوروجد آفرین نغمے فضا میں بکھر جاتے تھے۔ یہاں تک کہ اونچے اونچے پہاڑ بھی آپ کے ساتھ خدا کی حمد میں شامل ہو جاتے تھے۔ اس کا ذکربھی قرآن پاک میں آیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: “اورہم نے داؤدؑ پر اپنا فضل کیا۔ اے پہاڑوں! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح پرھاکرو اور پرندوں کو بھی (یہی حکم ہے)۔ ” (سورہ سبا)
یہودی کتب میں آپ ؑ کو بربط نامی ساز بجانے کاماہر لکھا ہے۔ توریت میں بھی آپ کے ان اوصاف کا ذکر ہوا ہے۔کتاب مقدس اورتوریت کی روایت کردہ آیات سے حضرت داؤد کی زندگی کے مختلف پہلو ظاہر ہوتے ہیں۔ پیدائشی اعتبار سے آپ شکیل، وجیہہ اور زبردست جسمانی قوت کی حامل تھے۔ انبیاء سابقہ کی طرح آپ بھی بھیڑ بکریاں چراتےتھے۔ وہ حق تعالیٰ کی عبادات میں مشغول رہتے تھے تبھی تو خدا ان کے ساتھ رہتا تھا یعنی وہ بُری باتوں سے ہروقت دور رہا کرتے تھے۔ وہ بربط بجانے کے ماہر تھے (یہودی عقیدہ) اور اسی پرحمدباری تعالیٰ کرتے رہتے تھے۔
زبور آپ کی دعا اورحمد سے بھری ہوئی ہے۔ایک دعا کا اقتباس یہ ہے: “اے خدا! میری حفاظت کر، کیوں کہ میں تجھی میں پناہ لیتا ہوں۔ میں نے خداوند سے کہا ہے کہ تو ہی میرا رب ہے۔ تیرے سوا میری بھلائی نہیں ہے۔ میں خداوند کی حمد کروں گا جس نے مجھے نصیحت دی ہے۔”
توریت کی روایت کے مطابق آپؑ نے دو شادیاں کی تھیں۔آپ کا پیشہ زرہ گری تھا۔ آپ لوہے سے سپاہیوں کے لئے زرہیں بناتے تھے۔ لوہا آپؑ کے ہاتھوں میں نرم ہوجاتا تھا۔ اس عمل کے لئے آپؑ کو نہ بھٹی کی ضرورت ہوتی تھی اورنہ ہی کسی ہتھوڑے کی۔
آپؑ کی عبادت کے بارے میں تمام آسمانی کتب میں اذکار موجود ہیں،خاص طور پر آپ کی تسبیح و تحمید ہے جو پہاڑوں اور پرندوں کے ساتھ ہوتی تھی۔ روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ آپ نصف شب تک آرام کرتے اور تہائی شب عبادات میں گزارتے۔ ایک دن روزہ رکھتے اور دوسرے دن افطار کرتے۔
مذہبی کتب میں آپؑ کی اولاد میں حضرت سلیمانؑ کانام سر فہرست ملتاہے جو آپ کے بعد بنی اسرائیل کے مشہور ومعروف بادشاہ اورپیغمبر گزرے ہیں۔ حضرت سلیمان، حضرت داؤد کی دوسری بیوی کے بطن سے تھے۔ آپ کی پہلی بیوی سے ابشالوم نامی بیٹا پیدا ہوا تھا جس نے آپ کے خلاف علم بغاوت بلندکیا تھا۔ وہ آپ سے بادشاہت چھیننا چاہتا تھا۔
حضرت داؤدؑ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بیت المقدس میں ہیکل کی تعمیرکا کام شروع کروایا تھا کہ وفات پاگئے اور یہ منصوبہ ادھورا رہ گیا۔
انبیاء کرام میں حضرت آدمؑ کے علاوہ صرف حضرت داؤدؑ ہی وہ پیغمبر ہیں جنہیں قرآن حکیم نے خلیفہ کہہ کر پکارا ہے: “اے داؤد! بے شک ہم نے تمہیں زمین میں اپنا نائب بنایا ہے۔” (سورۃ “ص” آیت )
خلیفہ کے علاوہ رب العالمین نے آپؑ پر اپنا ایک اور فضل کیا کہ آپ کو دنیا کی حکومت بھی عطاء کی جس کا ذکر قرآن شریف میں اس طرح آیا ہے: “اللہ نے انہیں حکومت بھی عطاء کی اور حکمت (نبوت) بھی اور اپنی مرضی سے جو چاہا سکھایا۔” سورہ بقرہ آیت 251)
توریت کے باب سلاطین اور تواریخ میں آیا ہے کہ حضرت داؤد نے کہن سالی میں انتقال فرمایا اوراسرائیلیوں پرچالیس سال حکومت کی۔
جعفر بن محمد کہتے ہیں کہ حضرت داؤدؑ نے ستر سال حکومت کی۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ہفتے کی دن جب وہ عبادت میں مشعول تھے اور پرندوں کی ٹکڑیاں پروں سے سایہ فگن تھیں کہ انتقال ہوگیا۔ آپؑ کی نبوت کا علاقہ صہیون تھا،وہیں دفن ہوئے۔
very very important information. kindly send me boigraphy of hazrat dawood a.s. into my inbox. i will be thankful to admin.
regards, email: [email protected]
ejaz rabbani
Nice . Can u post in much detail plz