اولاد طلب کرنے کی دُعائیں
تحریر: ابوعدنان محمدمنیر قمر (سعودی عرب)
مسلمانوں میں ضعیف الاعتقادی کچھ اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ شادی کے چند ماہ بعد تک اگر اولاد کی امید نظر نہ آئے تو ادھر اُدھر سے کئی طرح کی اشارے کنائے اور مشورے شروع ہوجاتے ہیں۔ بہو کی نندیں اور سہیلیاں پوچھنے لگتی ہیں کہ کیا بات ہے؟ تھوڑا وقت اور گذرا اب ساس یا گھر کی بڑی عورتوں میں بھی چہ مہ گویاں شروع ہوجاتی ہیں۔ دولہا میاں سے اس کے ماں باپ یا بھائی بہنیں کچھ کہیں یا نہ کہیں، دوست و احباب اور دیگر رشتہ داروں میں یہ بات چل نکلتی ہے۔ دولہا و دلہن کا میڈیکل چیک اپ ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ دونوں طرف کی رپورٹ او –کے ہے۔
اب دولہا دلہن کو تو کچھ اطمینان ہوگیا کہ ہم ٹھیک ہیں ۔ ان کے گھر والوں کی پریشانی بھی قدرے دور ہوگئی کہ بہو بیٹا دونوں ہر لحاظ سے فٹ ہیں۔ لیکن پڑوسنوں اور دورپار کے رشتہ دار خواتین کو اطمینان و سکون نہیں ہوتا، وہ بہو کی ساس اور نندوں کو بڑے قیمتی اور سراسر مفت مشورے دینا شروع کردیتی ہیں کہ فلاں مزار اور فلاں دربار پر جائیں، اُس پیر یا اُس ولی کے در پر حاضری دیں، جو مانگیں گے ، ملے گا، دل کی تما م مرادیں پوری ہونگی، تمہاری جھولی بھی بھر دینگے، بیڑی پار لگ جائی گی، بھلا وہاں سے کبھی کوئی خالی دامن بھی لوٹا ہے؟ وغیرہ ۔
مختلف درباروں، مزاروں، پیروں، مجاوروں، سرکاروں اور باووں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیتے ہیں۔ اور دولہا دلہن حتٰی کہ ان کے گھر والوں کو بھی قائل کرلیا جاتا ہے۔ اگر کوئی تھوڑا پس و پیش کرنا چاہے تو کہیں گے : شادی کو عرصہ ہورہا ہے۔ آنگن میں بچے کی پرسکون و نظر نواز کلکاریاں سننے کو کان او ر بچے کی معصوم صورت دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔ اسی لیے کسی ” بزرگ” کے پاس جانے کا مشورہ دے رہے ہیں، ابھی تک گھر والے پوری طرح تیار نہیں ہوئے تو کچھ خیرخواہ کہیں گے کہ آزمانے لینے میں کیا حرج ہے؟
پس پھر کیا ہے، ایک سے دوسرے مزار، نزدیک سے دور کے دربار، چھوٹی سے بڑی سرکار، مذہبی باووں ، حتیٰ کہ درباری مجاوروں کے ہاتھ پاؤں اور گٹھنے ٹخنے چھوتے اور چومتے آگے ہی بڑھے چلے جاتے ہیں۔
اللہ کی وہ مخلوق جس کا کام اولاد دینا ہے ہی نہیں، اسی سے اولاد مانگتے پھرتے ہیں اور وہ خالق جو پوری کائنات کا بنانے، سنبھالنے اور چلانے والا ہے۔ اولاد دینا یا نہ دینا جسکے اختیار میں ہے، اس طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔ اور اگر کبھی کوئی ربِ کائنات کے اس دربار ِ عالی کی طرف توجہ بھی دلائے تو پہلے نمبر پر شیطان وہ بات دماغ میں بیٹھنے ہی نہیں دیتا، دوسرے نمبر پر اس کے فری سروس والے مشیر خواتین و حضرات اس طرف آنے ہی نہیں دیتے۔ اور دردر کی خاک چھاننے پر لگائے رکھتے ہیں۔
بات لمبی نہ ہوجائے لہٰذا آیئے، قُرآنِ کریم سے پوچھیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی یہاں اولاد کو دیر ہوئی تو انہوں نے کس دربار سے اولاد مانگی اور نتیجہ کیا نکلا:
دُعا نمبر ۱: حضرتِ ابرہیم خلیل ؑ نے دُعا کی :
ترجمہ: ” اے پروردگار! مجھے وہ اولاد عطا فرما جو نیکوکاروں میں ہو۔ ” (الصفٰات ۱۰۰)
: اللہ تعالیٰ نے فرمایا
ترجمہ: ” ہم نے انہیں حلیم و بردبار بچے کی بشارت دے دی ۔” (الصفٰات ۱۰۱)
اللہ کے دربار سے مانگا تو اس نے جوانی یا بڑھاپے کو بھی معیار نہیں بننے دیا، بلکہ بڑھاپے کے باوجود انہیں اولاد کے سکھ سے نواز دیا۔
دُعا نمبر ۲: حضرت زکریا ؑ کی بیوی بانجھ تھیں اور خود بھی وہ بڑھاپے کو پہنچ چکے تھے۔ اولاد نہیں تھی۔ حضرت مریمؑ کی کفالت کرتے تھے۔ ان سے ملنےگئے تو دیکھا کہ انکے پاس بے موسم کا پھل پڑا ہے، پوچھا: مریم! یہ کہاں سے آیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا، اللہ کی طرف سے۔ سوچا کہ مریم کو اللہ نے بے موسم کا پھل بھیجا ہے، تو اس قادرِ مطلق کے لئے کیا ناممکن ہے؟ فوراً وہیں کھڑے کھڑے دعاء کی
ترجمہ: ” اے میرے رب! مجھے اپنے پاس سے اولادِ صالح عطافرما، بیشک تو دعاء سننے اور قبول کرنے والا ہے۔”
رحمتِ الٰہی جوش میں آئی، وہ ابھی وہیں کھڑے تھے کہ اللہ نے فرشتہ بھیج کر انہیں بیٹے کی بشارت دے دی۔ فرشتے نے آکر پیغام دیا۔
ترجمہ: ” کہ اللہ تعالیٰ تمہیں یحیٰ نام کا بیٹا دینے کی بشارت دیتا ہے۔”
یہ بشارت سن کر عرض کی ” اے اللہ! مجھے اب بیٹا کیسے ملے گا جبکہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے”
فرمایا: “اللہ جب کچھ کرنا چاہے تو وہ اسی طرح کرتا ہے۔ “
دُعاء نمبر ۳: حضرت زکریا ؑ نے بھی جب محسوس کیا کہ میں اکیلا ہوں ، میرا اللہ کے سوا کوئی وارث یا صلبی اولاد نہیں تو یہ دُعاء کی۔
ترجمہ: ” اے میرے پروردگار! مجھے اکیلا (بلاوارث) نہ چھوڑدینا، اور تو سب سے بہترین وارث ہے۔” سورۃ الانبیاء : ۸۹)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
ترجمہ: ” ہم نے انکی دعاء قبول کی اور انہیں یحیٰ ؑ عطا کیا اور انکی بیوی ( کے بانجھ پن ) کی انکے لئے اصلاح کردی۔”(سورۃ الانبیاء : ۹۰)
انبیاء کرام کی ان تینوں دعاؤں اور انکے پس منظر کو پڑھ کر دیکھیں کہ انہوں نے کس کس عمر اور کن کن طبی و طبعی حالات میں اللہ سے اولاد مانگی، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دربار سے خالی دامن نہیں لوٹایا۔
دُعاء نمبر ۴: ساتھ میں یہ دُعاء بھی مانگ لیا کریں تو بہتر ہے
ترجمہ: “اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطاء فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔” (الفرقان : ۴۷)
آج اولاد کے ہر خواہشمند مسلمان مردوزن کو یہ دعائیں یاد کرکے انہی کے ذریعے صرف اللہ تعالیٰ سے اولاد طلب کرنی چاہئے، کیونکہ یہ صرف اسی کی صفت ہے۔ اور وہی دیتا ہے۔ مزاروں ، درباروں یا پیروں ، فقیروں اور باووں ، سرکاروں سے اولاد طلب کرنا، اللہ کی جناب میں گستاخی اور شرک ہے جو کبیرہ گناہ ہے۔
قبولیتِ دعاء کی شرائط و آداب اور اوقات و مقاماتِ دعاء
بات ختم کرنے سے پہلے قبولیتِ دعاء سے متعلق یہ چند ضروری باتیں ذہن نشین کرلیں:
۱۔ شرائط قبولیتِ دعاء: (1) مالِ حرام سے اجتناب (2) خلوصِ کامل و حضورِ قلب (3) فرائض و واجبات کی ادائیکی ۔
۲۔ آدابِ دعاء: (1) وضوء (2)استقبالِ قبلہ (3) دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھا کر دعاء کرنا (4) اول و آخر حمد و ثناء باری تعالیٰ و درود شریف (5) اعمالِ صالحہ کا وسیلہ (6) اسماء الحسنیٰ کے ساتھ دعاء (7) پہلے اپنے لئے دعاء کریں (8) جامع دعائیں (9) مخفی طریقہ سے (10) باربار دعاء (11) بکثرت دعاء (12) مسنون و ماثور دعائیں۔ (13)معصیت و گناہ کے لئے نہ ہو۔ (14)قبولیت کے لئے بے صبری نہ ہو۔ (15) اللہ پر شرط نہ رکھیں ( کہ اگر تو چاہے تو قبول کر، وغیرہ) ۔ (16) امام صرف اپنے ہی لئے دعاء نہ کرے۔ (17) حد سے عدم تجاوز ( پرتکلف اور مقفیٰ و مسجع نہ ہوں، چلائیں نہیں)۔ (18) صالحین سے دعاء کروانا۔ (19) موت نہ مانگیں۔ (20) دعاء کے آخر میں آمین کہیں۔ (21) چہرے پر ہاتھ پھیرنا ثابت نہیں ہے۔ (خصوصاً دعاء قنوط وتر و قنوطِ نازلہ میں )
۳۔ اوقاتِ قبولیتِ دعاء: (1) حالتِ سجدہ ۔ (2) رات کی ایک مخصوص گھڑی۔ (3) آدھی رات۔ (4) سحری۔ (5) بوقتِ اقامت۔ (6) بوقتِ آذان۔ (7) آذان و اقامت کے مابین (8) لیلتہ القدر (9) گھمسان کی جنگ (10) بوقتِ صف بندی برائے جہاد (11) بارش (12) جمعہ (13)جمعرات و جمعہ کی درمیانی رات(14) فرض نمازوں کے آخر میں (15) تلاوت کے بعد (16) دینی اجتماع میں (17) یومِ عرفہ (18) رات کا آخری تہائی حصہ (19) جب امام ولا الضالین کہے (20) مرغ کی بانگ سنتے وقت (21) روزہ افطار کرتے وقت (22) آبِ زمزم پیتے وقت۔
۴۔ مقاماتِ قبولیتِ دعاء: (1) بیت اللہ کے اندر (2) صفا و مروہ پر (3) جمرات کے پاس (4) مشعرالحرام (مزدلفہ) کے پاس (5) جائے طواف (6) جائے سعی (7) میدانِ عرفات (8) منیٰ۔
۵۔ مستحاب الدعوات لوگ: (1) والدین (2) مظلوم (3) مسافر (4) روزہ دار (5) حاکمِ عادل (6) بکثرت ذکرِ الٰہی کرنے والے (7) کسی کی عدم موجودگی میں اس کے لئے دعاء کرنے والے (8) آذان کا جواب دیکر دعاء کرنے والے (9) حاجی (10) عمرہ کرنے والے (11) مجاہد۔
Awlad Talab Karne Ki Duaen by Abu Adnan Muhammad Munir Qamar
Awlad Talab Karne Ki Duaen by Abu Adnan Muhammad Munir Qamar. This article contains Masnoon Islamic supplications and wazaif for the birth of child.